سیرت الصحابہؓ :حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت العلام شیخ المکرم اللہ یارخان صاحبؒ
صدیق اکبرؓ کی مالی قربانیاں: اسلام، نام ہے اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کرنے کا، اپنی جسمانی قوت، ذہنی صلاحیتیں، اپنا وقت، اپنی مرغوبات، گھربار مال ودولت، ہر چیز کے متعلق یہ نظریہ عقیدہ اور یقین ہو کہ یہ سب کچھ اللہ رب العالمین کا ہے، میری حیثیت محض امین کی ہے اور اس میں میری آزمائش ہو رہی ہے کہ میں اس سب کچھ کو اپنا سمجھ کر اپنی خواہش اور پسند کے مطابق اس سے کام لیتا ہوں، یا ایک امین کی حیثیت سے اس کے اصل مالک کی پسند اور اس کے حکم کے ماتحت اسے استعمال کرتا ہوں، کیوں کہ اس نے صاف اعلان فرما دیا کہ ﴿لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا﴾ [الملك: 2] اور احسن عمل ان دو صورتوں میں سے صرف دوسری صورت ہے۔
اللہ کریم نے اپنی آخری کتاب میں اپنے آخری نبی کے جان نثار صحابہ کرام کی عظمت کا جہاں بھی ذکر کیا ہے ان کی زندگی کا پہلو بالعموم اہتمام سے واضح فرمایا۔ مثلاً: ﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ﴾ [الأنفال: 72]
گویا صحابہ کرام کا تعارف ہی ان کے اس وصف سے کرایا کہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جان اپنا مال اور اپنا گھر بار سب کچھ اللہ کے دین کی خاطر قربان کر دیا، اور اللہ کریم نے ان کے خلوص اور ایثار کی قدر بھی یوں فرمائی کہ ان کی زندگی میں ہی ان کے حق میں اعلان کر دیا کہ ﴿أَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللَّهِ﴾ [التوبة: 20] کہ ان لوگوں کو اللہ کا جو قرب حاصل ہے ان بلندیوں تک بنی نوع انسان میں سے کوئی نہیں پہنچ سکتا۔
وقت وقت کی بات ہے، بعض مواقع ایسے ہوتے ہیں اور بعض وقت ایسے ہوتے ہیں کہ حالات اور ماحول کا دباؤ انسان کو بعض انہونی باتوں کے لیے مجبور کر دیتا ہے، ایسے وقت میں ایثار اور قربانی کی قدر وقیمت ہی کچھ اور ہوتی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کے متعلق ﴿أَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللَّهِ﴾ [التوبة: 20] کے عمومی اعلان کے بعد پھر انھیں دو حصوں میں تقسیم کر دیا ارشاد ہوتا ہے:
﴿لَا يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُولَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا﴾ [الحديد: 10]
یعنی ساری مخلوق کے مقابلے میں تو صحابہ کرام کا درجہ بلند ترین ہے، مگر جہاں تک ان کا آپس میں مقابلے کا تعلق ہے وہ حضرات جو فتح مکہ سے پہلے اسلام کے خاطر مالی قربانیاں کرتے رہے وہ اپنے ان بھائیوں سے بھی بڑھ گئے جنہوں نے فتح مکہ کے بعد دین حق کے لیے مالی قربانیاں دیں۔
صدیق اکبر کا شمار اس پہلے گروہ میں ہوتا ہے، دوسرے گروہ میں، پھر صرف پہلے گروہ میں شمار ہی نہیں بلکہ اس جماعت کا سردار بھی صدیق ہے۔ چنانچہ ریاض النضرہ میں ہے:
أنفق أبوبكر على النبي صلى الله عليه وسلم أربعين ألفا
”یعنی ابو بکر صدیق نے حضور کی ذات پر چالیس ہزار نقد خرچ کیا تھا۔ “
قال: أسلم أبوبكر وله أربعون ألفا أنفق كلها على رسول الله صلى الله عليه وسلم في سبيل الله
”یعنی ابو بکر صدیق جب ایمان لائے تو ان کے پاس ۴۰ہزار نقد تھا سارے کا سارا نبی کریم پر اور اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا۔“
بعض روایتوں میں ملتا ہے کہ آپ کے پاس اس وقت۴۶ ہزار تھا۔ ہجرت کے روز آپ کے پاس ۵ہزار تھا جو سارا ہمراہ لے گئے۔ اسی وجہ سے صدیق اکبر کے والد نے کہا تھا کہ ابو بکر اپنے گھر والوں کو دو مصیبتوں میں ڈال گیا ہے، ایک قریش کی دشمنی، دوسرا گھر والوں کو قلاش چھوڑ گیا۔ یہ سن کر صدیق کی بیٹی اسماء بنت ابی بکر اپنے دادا ابو قحافہ کو جو اس وقت نابینا ہو چکے تھے، تسلی دینے کے لیے اندر لے گئی جہاں اس نے پہلے سے ایک گڑھا کھود کر کنکر اور ٹھیکریاں بھر دیں اور اوپر کپڑا ڈال رکھا تھا۔ اس پر بوڑھے نابینا دادا کا ہاتھ رکھ کر کہا مال سب موجود ہے اس واقعہ کو مؤرخ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
أسماء بنت أبي بكر، قالت: لما خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم وخرج أبو بكر معه، احتمل أبو بكر ماله كله، ومعه خمسة آلاف درهم أو ستة آلاف، فانطلق بها معه. قالت: فدخل علينا جدي أبو قحافة، وقد ذهب بصره، فقال: والله إني لأراه قد فجعكم بماله مع نفسه. قالت: قلت: كلا يا أبت! إنه قد ترك لنا خيرا كثيرا. قالت: فأخذت أحجارا فوضعتها في كوة في البيت الذي كان أبي يضع ماله فيها، ثم وضعت عليها ثوبا، ثم أخذت بيده، فقلت: يا أبت، ضع يدك على هذا المال. قالت: فوضع يده عليه، فقال لا بأس، إذا كان ترك لكم هذا فقد أحسن، وفي هذا بلاغ لكم. لا والله ما ترك لنا شيئا (سيرة ابن هشام: 2/ 96)
حضرت اسما نے اپنے دادا کی تسلی کے لیے یہ تدبیر کی، مگر آخر میں حقیقت سے پردہ اٹھایا کہ اللہ کی قسم ابو بکر نے ہمارے لیے کچھ نہیں چھوڑا تھا۔
حضرت ابو بکر نے یہ سب کچھ اللہ کی رضا کی خاطر کیا مگر حصول رضائے باری کے لیے جو واحد واسطہ تھا اس کی قدردانی کا کیا کہنا:
عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: “ما نفعني مال قط ما نفعني مال أبي بكر”، قال: فبكى أبو بكر، وقال: هل أنا ومالي إلا لك يا رسول الله (الجامع الكامل في الحديث الصحيح الشامل المرتب على أبواب الفقه: 9/ 21)
”یعنی ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ مجھے کسی کے مال نے اتنا نفع نہیں دیا جتنا ابو بکر کے مال نے فائدہ پہنچایا، ابو بکر یہ سن کر رونے لگے اور عرض کیا یا رسول اللہ میری ذات اور میرا مال سب آپ کی خاطر ہیں سب کچھ آپ پر قربان ہیں۔ “
مکی زندگی میں حضورﷺ کی ذات اور حضور کے پیغام کی خاطر جس قدر مالی ضرورت سامنے آتی تھیں وہ یا تو صدیق اکبر کے مال سے پوری ہوتی تھیں یا حضرت خدیجۃ الکبری کے مال سے، یہ ہے: ﴿لَا يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ ﴾ [الحديد: 10]کی تفسیر اور اسی سے صدیق اکبر کا تمام صحابہ سے اعظم ہونا ثابت ہوتا ہے۔ یہیں سے اس امر کا ثبوت ملتا ہے کہ رسولِ خداﷺ اور صدیق اکبر کا مال اور عزت مشترک تھی، اسی وجہ سے قرآن نے صدیق کو ”ثانی اثنین“ کا لقب دیا، حضرت ابو ہریرہ کی ایک روایت ہے۔
نبی کریمﷺ کی قدر دانی:
1۔ عن أبي هُريرةَ، قال: قال رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: “ما لِأحدٍ عِندنا يَدٌ إلا وقد كافَيْناهُ ما خَلا أبا بَكْرٍ، فإنَّ له عِندنا يَدًا يُكافِئهُ اللهُ بِها يَوْمَ القيامةِ. (سنن الترمذي: 6/ 245)
”یعنی حضور اکرمﷺ نے فرمایا کسی شخص کا مجھ پر کوئی احسان ایسا نہیں جس کا بدلہ میں نے چُکا نہ دیا ہو، صرف ابو بکر کا احسان ایسا ہے جس کا بدلہ قیامت کو اللہ تعالیٰ ہی اسے دے گا۔ “
حضور اکرمﷺ کے اس ارشاد سے صاف ظاہر ہے کہ صدیق اکبر کی قربانی کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے ایسی ہی ہے کہ اس کا بدلہ دنیا انسانی طاقت سے باہر ہے، خالق ہی اس کا بدلہ دے سکتا ہے اور اس کا بدلہ اتنا ہے کہ یہ جہان اس کا متحمل نہیں، دارِ آخرت ہی اس کے بدلے کا متحمل ہو سکے گا۔
2۔ ایک روز عقیل بن طالب نے صدیق اکبر سے تلخ کلامی کی، مگر وہ قرابتِ رسولؐ کی وجہ سے خاموش رہے، مگر حضور اکرم سے اس امر کی شکایت کر دی، حضور اکرمﷺ صحابہ کے سامنے کھڑے ہو گئے اور تقریر فرمائی جس کا کچھ حصّہ ریاض النضرہ سے پیش کیا جاتا ہے:
والله لقد قلتم كذب وقال: أبو بكر صدق وأمسكتم الأموال وجاد لي بماله وخذلتموني وواساني بنفسه. (الرياض النضرة في مناقب العشرة: 1/ 131)
”بخدا تم قریش نے کہا کہ محمد جھوٹ کہتا ہے، (معاذ اللہ) مگر ابو بکر نے کہا سچ کہتا ہے، تم نے اپنے مال روک رکھے میری یا اسلام کی خاطر خرچ کرنا گوارا نہ کیا، مگر ابو بکر نے نہایت فراخ دلی سے میری خاطر صرف مال ہی خرچ کرنا گوارا نہ کیا بلکہ ابو بکر نے مجھے آرام پہچانے کے لیے اپنی جان تک پیش کر دی۔ “
اس خطبہ سے صاف ظاہر ہے کہ حضور اکرمﷺ کے دل میں جو قدر صدیق اکبر کی تھی وہ اپنے رشتہ داروں کی بھی نہ تھی۔
3۔ عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أبو بكر أخي في الدنيا والآخرة، رحم الله أبا بكر وجازاه من الرسول خيرا، واساني النفس والمال.
”حضرت انسؓ فرماتے ہیں حضور اکرمؐ نے فرمایا ابو بکر دنیا اور آخرت میں میرا بھائی ہے، اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے اور اپنے رسول کی طرف سے اس کو جزائے خیر دے، اس نے اپنی جان اور مال سے میری مدد کی۔ “
گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے کہ ابو بکر صدیقؓ نے عرض کیا تھا یا رسول اللہ! میری جان اور میرا مال آپ ہی کا ہے۔ اس روایت سے معلوم ہوا کہ حضور اکرمﷺ کی طرف سے اس پیش کش کو شرفِ قبولیت بخشا گیا اور اللہ کے رسول نے اپنے رب سے اس کا بدلہ دینے کی دعائیں کیں۔
4۔ عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں حضورؐ کے پاس بیٹھا تھا۔ صدیق اکبر حضور اکرم کے پاس گودڑی لپیٹے بیٹھے تھے۔ اتنے میں جبرائیل آئے اور کہا یا رسول اللہ! ابو بکرؓ نے یہ کیا حالت بنا رکھی ہے۔
فقال: “يا جبريل أنفق ماله علي قبل الفتح” قال: فإن الله -وعز وجل- يقرأ عليك السلام ويقول لك قل له أراض أنت عني في فقرك هذا أم ساخط فقال: النبي صلى الله عليه وسلم “يا أبا بكر إن الله يقرأ عليك السلام ويقول لك أراض أنت عني في فقرك هذا أم ساخط؟ فقال: أبو بكر أسخط على ربي؟ أنا عن ربي راض أنا عن ربي راض أنا عن ربي راض. (الرياض النضرة في مناقب العشرة: 1/ 132)
”حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے جبرائیل ابو بکر نے اپنا سارا مال تو فتح مکہ سے پہلے ہی مجھ پر خرچ کر دیا ہے اب یہ حالت نہ ہو تو کیا ہو، تو جبرائیل نے فرمایا یا رسول اللہ اللہ تعالیٰ آپ کو سلام کہتے ہیں، اور فرمایا ہے کہ ابو بکر سے پوچھیں کہ! کیا تم اس حالت فقر میں اللہ سے راضی ہو یا نہیں حضور اکرم نے ابو بکر کو اللہ کا پیغام پہنچایا، ابو بکر صدیق نے عرض کی کہ! اللہ تعالیٰ مجھ سے ناراض تو نہیں، میں تو اپنے رب سے راضی ہوں، راضی ہوں، راضی ہوں۔ “
حضور اکرمﷺ کی قدردانی کے سلسلے میں روایات گزر چکی ہیں، اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے ہاں صدیق اکبر کی قدردانی کا یہ عالم ہے، مگر جن لوگوں کے دلوں میں اللہ اور اس کے رسول کی قدر نہیں وہ ان کے محبو بوں کی بھلا کیا قدر کر سکتے ہیں۔
5۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: «مَا أَحَدٌ أَعْظَمُ عِنْدِي يَدًا مِنْ أَبِي بَكْرٍ رضي الله عنه، وَاسَانِي بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ وأَنْكَحَنِي ابْنَتَهُ. (المعجم الكبير للطبراني: 11/ 191)
”ابن عباس فرماتے ہیں حضور اکرم نے فرمایا کسی آدمی کا احسان ابو بکر کے احسان سے بڑھ کر مجھ پر نہیں ہے۔ اس نے میری جانی اور مالی مدد کی، اور اپنی بیٹی میرے نکاح میں دے دی۔ “
6۔ مسجد نبوی کی تعمیر کا مسئلہ ہجرت مدینہ کے وقت سب سے پہلا اجتماعی مسئلہ تھا چنانچہ نماز باجماعت کے لیے مسجد بنانے کی تجویز ہوئی، جگہ خرید لی گئی، مگر قیمت کی ادائیگی کا معاملہ بڑا کٹھن تھا، چنانچہ صدیق اکبر ہی وہ شخص ہے جس نے قیمت اپنی گرہ سے ادا کی، قیامت تک جو مسلمان اس مسجد میں نماز ادا کرتے رہیں گے اس کا ثواب ابو بکر صدیق کے کھاتے میں جمع ہوتا رہے گا۔
یہ اس کی دَین ہے جسے پروردگار دے
ابوبکر صدیقؓ بحیثیت خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: منصب خلافت سنبھالتے ہی ابو بکر کا سارا دن امور مسلمین کے طے کرنے میں صَرف ہوا۔ شام کو اٹھے تو خیال آیا کہ گھر میں تو کھانے کی کوئی چیز نہیں بازار چلے گئے، آواز دی کہ مزدور کی ضرورت ہو تو مزدور موجود ہے، جو دیکھتا لوٹ کے چلا جاتا کہ مزدور کہاں، یہ تو خلیفہ رسولؐ ہیں اور ہم اس کے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں۔ آخر ایک آدمی مل گیا جو نہ جانتا تھا کہ یہ خلیفہ ہیں اسے مزدور کی ضرورت تھی، چنانچہ طے ہوا کہ یہ میری بکری اٹھا کر گھر پہنچا دو، ایک درہم دوں گا، مزدوری کی، سودا لے کر گھر آئے۔ دوسرے روز تنخواہ مقرر ہوئی تاکہ امیر المؤمنین مسلمانوں کے امور کی طرف پوری توجہ دے سکے۔ (فتح الباری: ۸: ۳۴۱ میں اس کی کچھ تفصیل دی گئی ہے۔
إن القدر الذي كان يتناوله فرض له باتفاق من الصحابة، فروى ابن سعد بإسناد مرسل رجاله ثقات قال: لما استخلف أبو بكر أصبح غاديا إلى السوق على رأسه أثواب يتجر بها، فلقيه عمر بن الخطاب، وأبو عبيدة بن الجراح فقال: كيف تصنع هذا وقد وليت أمر المسلمين؟ قال: فمن أين أطعم عيالي؟ قالوا: نفرض لك. ففرضوا له كل يوم شطر شاة. (فتح الباري لابن حجر: 4/ 305)
”صدیق اکبر کی تنخواہ صحابہ کرام کے اتفاق سے مقرر ہوئی۔ ابن سعد نے مرسل اسناد کے ساتھ روایت کی، جس کے تمام راوی ثقہ ہیں کہ جب ابو بکر خلیفہ مقرر ہوئے تو صبح سویرے کپڑے کے تھان سر پر رکھ کر بازار جا رہے تھے کہ فروخت کریں، آپ کو عمر فاروق اور ابو عبیدہ بن الجراح راستے میں مل گئے انہوں نے کہا یہ کیا حالت ہے آپ تو مسلمان کے امیر مقرر ہو چکے ہیں، فرمایا: میرے اہل وعیال کھائیں گے کہاں سے انہوں نے کہا ہم بیت المال سے آپ کی تنخواہ مقرر کرتے ہیں۔ تو صحابہ کرام نے ابو بکر صدیق کے لیے ایک بکری کا نصف حصّہ آپ کا روزینہ مقرر فرمایا۔“
اور کنز العمال میں بحوالہ ابن سعد حمید بن ہلال سے مروی ہے کہ:
لما ولي أبو بكر قال أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم: أفرضوا5 لخليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم ما يغنيه، قالوا نعم برداه إن أخلقهما وضعهما وأخذ مثلهما وظهره إذا سافر ونفقته على أهله كما كان ينفق قبل أن يستخلف، قال أبو بكر: رضيت. (كنز العمال: 5/ 608)
”جب ابو بکرؓ خلیفہ مقرر ہوئے تو صحابہ کرام نے فرمایا کہ خلیفہ رسول کی تنخواہ مقرر کریں جو ان کی ضروریات کے لیے کافی ہو۔ سب نے بالاتفاق اس تجویز کو درست قرار دے کر مقرر یہ کیا کہ ان کے لیے دو چادریں بیت المال سے دی جائیں، جب یہ پرانی ہو جائیں تو بیت المال میں ان کو داخل کر کے ایسی اور لے لیا کریں۔ ایک سواری کا انتظام ہو جس پر یہ سفر کریں، اور اہل وعیال کے لیے اتنا خرچ جتنا آپ خلیفہ بننے سے پہلے کیا کرتے تھے، آپ نے فرمایا میں اس پر راضی ہوں۔ “
فتح الباری نے اس تنخواہ کی علت بھی بیان کر دی کہ فامتنع بأمر المسلمین عن الاکتساب یعنی ابو بکر صدیقؓ کاروبار خلافت کی مصروفیات کی وجہ سے اپنے کاروبار کے لیے وقت نہیں نکال سکتے تھے، اور بخاری میں حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ:
وشُغِلْتُ بأمر المسلمين، فيَأكل آل أبي بكر من هذا المال ويَحْترف للمسلمين.
”یعنی ابو بکر صدیق نے فرمایا اب میں مسلمانوں کے کاموں میں مشغول ہو چکا ہوں اس لیے ابو بکر کا کنبہ بیت المال سے ما یحتاج لے گا اور ابو بکر ان کا کام کرے گا۔ “
روایت میں مقدار تنخواہ میں اختلاف بھی پایا جاتا ہے مگر علامہ بیہقی نے سنن الکبری ۶: ۳۵۳پر ابو بکر صدیق کے زمانہ خلافت کا مجموعی خرچ لکھ دیا ہے۔
فأنفق في سنتين وبعض أخرى ثمانية آلاف درهم. فلما حضره الموت قال: قد كنت قلت لعمر: إني أخاف أن لا يسعني أن آكل من هذا المال شيئا، فغلبني فإذا أنا مت فخذوا من مالي ثمانية آلاف درهم وردوها في بيت المال. قال: فلما أتي بها عمر رضي الله عنه قال: ” رحم الله أبا بكر، لقد أتعب من بعده تعبا شديدا . (السنن الكبرى للبيهقي: 6/ 575)
”حضرت ابو بکر نے اپنے سوادو سال کے زمانۂ خلافت میں قریباً دو ہزار روپیہ بیت المال سے لے کر خرچ کیا۔ وفات کے وقت فرمانے لگے میں نے عمر سے کہا تھا کہ بیت المال سے میرے کھانا ٹھیک نہیں۔ مگر عمر نے مجبور کیا میں مر جاؤں تو میرے مال سے دو ہزار روپیہ لے کر بیت المال میں واپس کر دینا۔ آپ کی وفات کے بعد وہ مال فاروق اعظم کے پیش کیا گیا تو حضرت عمر نے فرمایا اللہ تعالیٰ ابو بکر پر رحم فرمائے، اس نے بعد میں آنے والے خلفاء کو سخت مشکل میں ڈال دیا۔ “
اور کنز العمال میں حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ صدیق اکبرؓ نے فرمایا:
إنا منذ ولينا أمر المسلمين لم نأكل لهم دينارا ولا درهما ولكنا قد أكلنا من جريش طعامهم في بطوننا، ولبسنا من خشن ثيابهم على ظهورنا، وليس عندنا من فيء المسلمين قليل ولا كثير إلا هذا العبد الحبشي وهذا البعير الناضح وجرد هذه القطيفة، فإذا مت فابعثي بهن إلى عمر وإبرئي منهن، ففعلت، فلما جاء الرسول عمر بكى حتى جعلت دموعه تسيل في الأرض وجعل يقول: رحم الله أبا بكر لقد أتعب من بعده! يا غلام! ارفعهن، فقال عبد الرحمن بن عوف: سبحان الله! تسلب عيال أبي بكر عبدا حبشيا وبعيرا ناضحا وجرد قطيفة ثمن خمسة الدراهم، قال: فما تأمر؟ قال: تردهن على عياله، فقال: لا. (كنز العمال: 12/ 541)
۔۔
”صدیق اکبر نے فرمایا جب مجھے مسلمانوں کا حاکم بنایا گیا تو میں نے کوئی درہم ودینار نہیں کھایا بلکہ موٹی خشک روٹی میری غذا رہی، اور موٹا کھردرا کپڑا میرا لباس رہا اور ہمارے پاس مسلمانوں کے مال فے سے کوئی چیز نہیں سوائے ایک حبشی غلام کے، پانی نکالنے والے ایک اونٹ اور ایک پرانی چادر کے۔ پس جب میں مر جاؤں تو اے عائشہ یہ تمام چیزیں حضرت عمر کو پہنچا دینا۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں میں نے ایسا ہی کیا جب یہ چیزیں لے کر آدمی حضرت عمر کے پاس گئے تو حضرت عمر پر گریہ طاری ہو گیا حتی کہ ان کے انسوث زمین پر بہنے لگے، اور وہ فرماتے تھے کہ ابو بکر پر اللہ رحم کرے اس کے بعد میں آنے والوں کو سخت مشکل میں ڈال دیا۔ پھر آپ نے غلام کو حکم دیا کہ یہ چیزیں بیت المال میں داخل کر دے، یہ سن کر حضرت عبدالرحمن بن عوف بولے، کیا آپ ایک غلام ایک اونٹ اور ایک چادر جس کی قیمت سوا روپیہ سے بھی کم ہے ابو بکر کے کنبے سے چھیننا چاہتے ہیں فاروق اعظم نے پوچھا! آپ کا کیا خیال ہے انہوں نے فرمایا: کہ یہ چیزیں ابو بکر کے گھر والوں کو واپس کر دیں، حضرت عمر نے فرمایا میں ایسا نہیں کروں گا یعنی ان کی وصیت کو نافذ کروں گا۔ “
تاریخ الخلفاء میں بحوالہ ابن ابی الدنیا ابو بکر بن حفص سے بھی یہی مروی ہے اور امام احمد نے کتاب الزہد میں بھی اسی مضمون کی روایت بیان کی ہے۔
اور کنز العمال میں صدیق اکبر کے الفاظ یوں ملتے ہیں:
فلما حضرته الوفاة قال: ردوا ما عندنا من مال المسلمين؛ فإني لا أصيب من هذا المال شيئا وإن أرضي التي بمكان كذا وكذا للمسلمين بما أصبت من أموالهم؛ فدفع ذلك إلى عمر. (كنز العمال: 5/ 611)
”وفات کے وقت صدیق اکبر نے فرمایا ہم نے بیت المال سے جو کھایا ہے وہ واپس کر دینا۔ مکہ میں میری فلاں زمین فروخت کر کے جو دو ہزار روپیہ بیت المال سے لیا وہ تمام خلیفہ عمر کے پاس پہنچا دینا۔ “
تاریخ طبری ج۴ میں حضرت عائشہؓ کی زبانی صدیق اکبر کے اخراجات کا کچھ اجمالی بیان ہوا ہے۔
فترك التجارة واستنفق من مال المسلمين ما يصلحه ويصلح عياله يوما بيوم، ويحج ويعتمر وكان الذي فرضوا له في كل سنة ستة آلاف درهم، فلما حضرته الوفاة، قال: ردوا ما عندنا من مال المسلمين، فإني لا أصيب من هذا المال شيئا، وإن أرضي التي بمكان كذا وكذا للمسلمين بما أصبت من أموالهم، فدفع ذلك إلى عمر… إلى أن قال أبوبكر: انظروا كم أنفقت منذ وليت من بيت المال فاقضوه عني فوجدوا مبلغه ثمانية آلاف درهم في ولايته.(تاريخ الطبري: 3/ 432)
”حضرت ابو بکر خلیفہ ہوئے تو تجارت ترک کر دی، اور بیت المال سے اتنا خرچ کرتے جو روزانہ ضروریات کے لیے کفایت کرتا تھا اور حج اور عمرہ پر خرچ ہوتا تھا آپ کے لیے جو وظیفہ مقرر تھا وہ 6 ہزار درہم سالانہ تھا جب آپ کی وفات کا وقت ایا تو آپ نے فرمایا جو مال میں نے بیت المال سے لیا ہے وہ سارا بیت المال میں واپس کر دینا اس مقصد کے لیے میری زمین بیچ دینا جو فلاں فلاں جگہ موجود ہے اور فرمایا حساب کر کے دیکھو میں نے کتنا مال خرچ کیا ہے حساب کیا گیا تو معلوم ہوا زمانہ خلافت (سوا دو برس) ۸ ہزار درہم قریباً دو ہزار روپیہ، خرچ ہوا تھا۔ “
مسائل
حضرت ابو بکر کے اس رویّہ اور صحابہ کے تعامل سے تین امور کی وضاحت ہوتی ہے:
- جو شخص قومی خدمات پر مامور ہو اور اپنی معاش کے لیے کوئی کام نہ کر سکے، تو اس کی ضروریات کو پورا کرنے کا بندوبست کرنا قوم کے ذمے ہے اور اس کے لیے وہ حق الخدمت حلال اور جائز ہو گا۔
- صدیق اکبر نے اس قانون کے تحت حق الخدمت لینا تو قبول کر لیا مگر آخری وقت یہ سارا مال لوٹانے کا حکم دیا یہ ان کا تقویٰ ہے۔
- صدیق اکبر نے پہلے فتوی پر عمل کر کے سنت پر عمل کیا پھر تقویٰ اختیار کیا اور اپنے آپ کو قرآن حکیم کی اس آیت کا مصداق ثابت کر دیا کہ ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم. یعنی تم مسلمانوں میں سے اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے اور صدیق اکبر کے اس تقویٰ کی مثال اسلامی تاریخ میں اور کہیں نہیں ملتی، اس سے آپ کا افضل البشر بعد انبیاء ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔
صدیق اکبر کی عظمت صفت تقویٰ کی بنا پر ثابت ہوتی ہے اور مطلق انفاق مال کے اعتبار سے صدیق اکبر کا جو مقام ہے اس کا اعلان قرآن کریم نے واضح الفاظ میں فرمایا کہ:
﴿لَا يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُولَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا﴾ [الحديد: 10]
” یعنی تم میں سے وہ شخص بلند ترین درجہ رکھتا ہے جس نے فتح مکہ سے پہلے مال خرچ کیا، اور جہاد کیا بمقابلہ ان صحابہ کے جنہوں نے فتح کے بعد مال خرچ کیا اور جہاد کیا۔ “
مگر اس آیت کا آخری ٹکڑا وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَى یعنی ایک گروہ کی عظمت اپنی جگہ مسلّم، مگر دونوں گروہ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ نہایت اعلیٰ صلہ دینے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ اسی ٹکڑے سے تمام صحابہ کا کامل الایمان ہونا ثابت ہے جو وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَىکا تقاضا ہے۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ فتح مکہ سے پہلے مسلمانوں میں سب سے زیادہ مالدار حضرت عثمان تھے، مگر اس دور میں حضور اکرم کی خاطر اور دین کے لیے مال صرف ابو بکر صدیق ہی کا خرچ ہوا۔ لہٰذا صحابہ میں کوئی ان کی برابر نہیں کرسکتا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف بھی متمول ترین صحابہ میں سے تھے، مگر وہ مدینہ اث کر تجارت کر کے اس مقام تک پہنچے۔ حضرت علی نو عمر اور خوشحالی کے اعتبار سے اس قابل ہی نہ تھے کہ کچھ مال خرچ کر سکتے، کیوں کہ آپ کی پرورش بلکہ ابو طالب کے کنبہ کی پرورش خود نبی کریم فرمایا کرتے تھے۔ حضرت ابو بکر کے تمول اور انفاق فی سبیل اللہ کے جذبہ سے ایک اور حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ جو اللہ کی راہ میں اور اللہ کے دین کی خاطر خرچ ہو وہ مال عین دین اور عین عبادت ہے۔ جس دور میں ہم گزر رہے ہیں اس سے ملتے جلتے حالات میں امام الاطقیاء حضرت سفیان ثوری نے فرمایا تھا کہ جس عالم دین کے پاس مال ہو اسے چاہیے کہ اسے اور بڑھائے ورنہ یہ اُمراء آپ لوگوں کو رو مال بنا کر اپنا چہرہ صاف کیا کریں گے۔
اور اس حقیقت کی نشان دہی خود خاتم الانبیاء اور خاتم الاطقیاء نے فرما دی ہے جیسا کہ کنز العمال ۳: ۷۳۲ میں ذکر ہوا:
- عن أبي بكر الصديق، قال دينك لمعادك، ودرهمك لمعاشك، ولا خير في امرء بلا درهم. (كنز العمال: 3/ 732)
”تمہارا دین آخرت کے لیے ہے اور تمہارا مال معاش کے لیے ہے مال کے بغیر انسان ذلیل ہوتا ہے۔ “
- عن علي قال: خياركم من لم يدع آخرته لدنياه، ولا دنياه لآخرته. (كنز العمال: 3/ 732)
”یعنی تم میں سے اچھا آدمی وہ ہے جو دنیا کی خاطر آخرت کو نہ چھوڑے اور آخرت کی خاطر دنیا کو نہ چھوڑے۔ “
- عن حذيفة قال: خياركم الذين يأخذون من دنياهم لآخرتهم. (كنز العمال: 3/ 733)
”یعنی تم میں سب سے اچھے وہ لوگ ہیں جو دنیا سے آخرت کو حاصل کر لیتے ہیں۔ “
- عن حذيفة قال: ليس خياركم من ترك الدنيا للآخرة، ولا من ترك الآخرة للدنيا، ولكن خياركم من أخذ من كل. (كنز العمال: 3/ 733)
”تم میں سے اچھا وہ نہیں جو آخرت کے لیے دنیا کو چھوڑ دے، نہ وہ اچھا ہے جو دنیا کی خاطر آخرت کو چھوڑ دے، بلکہ اچھا وہ نہیں جو آخرت کے لیے دنیا کو چھوڑ دے، نہ وہ اچھا ہے جو دنیا کی خاطر آخرت کو چھوڑ دے، بلکہ اچھا وہ ہے جو دونوں سے اپنا حصّہ حاصل کرے۔ “
- قال صلى الله عليه وسلم: لا خير فيمن لا يحب المال يصل به رحمه، ويؤدي به أمانته ويستغنى به عن خلق ربه. (كنز العمال: 3/ 240)
”نبی کریم نے فرمایا وہ آدمیث اچھا نہیں جو مال کو اچھا نہیں جانتا، حالانکہ وہ مال سے اپنے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرسکتا ہے، امانتیں ادا کرسکتا ہے اور مخلوق کا دست نگر ہونے سے مستغنی رہ سکتا ہے۔ “
- قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: «يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَنْفَعُ فِيهِ إِلَّا الدِّينَارُ وَالدِّرْهَمُ. (الفتن لنعيم بن حماد: 1/ 255)
حضورؐ نے فرمایا ایک وقت آنے والا ہے کہ روپیہ پیسہ ہی کام دے گا۔
- نعم العون على تقوى الله المال. (كنز العمال: 3/ 239)
”یعنی تقویٰ اور اللہ کے خوف کے لیے انسان کا بہترین معاون مال ہے۔ “
- لا تسبوا الدنيا، فلنعم المطية للمؤمن، عليها يبلغ الخير وعليها ينجو من الشر. (كنز العمال: 3/ 239)
”فرمایا دنیا کو برا نہ کہو مال تو مومن کے لیے اچھی سواری ہے جس کے ذریعے وہ خیر وخوبی کو پہنچتا ہے اور اسی کے ذریعے برائی اور تکلیف سے نجات پاتا ہے۔ “
- الدراهم والدنانير خواتيم الله في أرضه، من جاء بخاتم مولاه قضيت حاجته. (كنز العمال: 3/ 238)
مال ودولت اللہ تعالیٰ کی تصدیق مُہر ہے جو آدمی اس مہر کو لے کر کسی کے پاس جائے گا اس کی حاجت پوری کی جائے گی۔
- ليس بخيركم من ترك دنياه لآخرته ولا آخرته لدنياه حتى يصيب منهما جميعا، فإن الدنيا بلاغ إلى الآخرة، ولا تكونوا كلا على الناس. (كنز العمال: 3/ 238)
فرمایا تم میں وہ آدمی اچھا نہیں جو دنیا کو آخرت کے لیے بالکل ترک کر دے، یا جس نے آخرت کو دنیا کی ہوس میں چھوڑ دیا بلکہ اچھا وہ ہے جو دنیا اور آخرت دونوں سے اپنا حصّہ لے اور حقیقت یہ ہے کہ مال دنیا آخرت کی سواری ہے، دیکھنا! مخلوق کے لیے بوجھ نہ بن جانا۔
- إذا كان في آخر الزمان لابد للناس فيها من الدراهم والدنانير يقيم الرجل بها دينه ودنياه. (كنز العمال: 3/ 238)
فرمایا ایک وقت آئے گا کہ لوگوں کے لیے مال کا موجود ہونا لازمی ہو گا، مال کے ذریعہ ہی انسان اپنے دین اور دنیا کو بچا سکے گا۔ (ورنہ اس کا دین اس کی عزت اس کی آبرو محفوظ نہیں رہ سکے گا)
- الزهادة في الدنيا ليست بتحريم الحلال ولا إضاعة المال. (كنز العمال: 3/ 181)
فرمایا زُہد یہ نہیں کہ آدمی حلال کو اپنے لیے حرام کرے اور نہ زُہد وتقویٰ یہ ہے کہ آدمی اپنے مال کو ضائع کرے۔
- من فقه الرجل أن يصلح معيشته، وليس من حب الدنيا طلب ما يصلحك. (كنز العمال: 3/ 50)
انسان کی عقل مندی کی علامت یہ ہے کہ اس کی معیشت درست ہو، اپنے اور اہل وعیال کے حالات درست رکھنا حُب دنیا نہیں ہے۔
- يا أبا ذر إنه لا يضرك من الدنيا ما كان للآخرة، إنما يضر من الدنيا ما كان للدنيا. (كنز العمال: 3/ 728)
فرمایا اے ابو ذر! جو مال آخرت کی بہتری کے لیے ہو وہ تمہارے لیے نقصان دہ نہیں، مُضر وہ مال ہے جو دنیوی تفوق کی خاطر اور صرف مال جمع کرنے کی خاطر ہوس کو پورا کرنے کے لیے ہو۔
کسب مال اور اس کی ضرورت کے سلسلے میں یہ چند ارشادات نبوی لکھنے کی تحریک اس وجہ سے ہوئی کہ صدیق اکبر کے مال ودولت نے عملاً یہ ثابت کر دیا کہ مال فی نفسہٖ بری چیز نہیں، اللہ اور اس کے رسول نے مال کے لیے خیر کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس کی حیثیت ذریعہ کی ہے۔ مگر یہ اللہ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے اور اللہ کے غضب کو دعوت دینے کا ذریعہ بھی ہو سکتا ہے۔ پہلی صورت میں یہی مال سراپا خیر ہے، اور دوسری صورت میں شر ہی شر ہے۔ صدیق اکبر نے مال کے لیے لفظ خیر کے اطلاق کا نمونہ پیش کر دیا، جس کی تصدیق اللہ اور اس کے رسول نے برملاکر دی۔
اس بیان کی دوسری وجہ یہ ہے کہ معاندین نے اسلام کے ذمہ یہ تہمت لگا رکھی ہے کہ اسلام ترکِ دنیا سکھاتا ہے، اور مال اور صاحبِ مال کی مذمت کرتا ہے۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ اسلام کسب مال کی مذمت نہیں کرتا بلکہ اسے ضروری قرار دیتا ہے۔ ہاں اس پر بعض پابندیاں ضرور عائد کرتا ہے البتہ حُب مال اور ہوس زر کو اسلام واقعی مضموم سمجھتا ہے کیوں کہ محبّت کا یہ خاصہ ہے کہ انسان کی توجہ محبوب سے ہٹنے نہیں دیتی، لہٰذا ہوس زر کا مریض انسان شرف انسانیت سے گر کر اسفل السافلین تک پہنچ جاتا ہے۔ اس فرق کو عارف رومی نے ایک شعر میں بیان کر دیا ہے۔
آب زیر کشتی او را پشتی است | آب در کشتی ہلاکِ گشتی است |
دوسرے رنگ میں فرمایا:
چیست دنیا از خدا غافل بدن | نے قماش ونقرہ وفرزند وزن |
اس کی تیسری وجہ یہ ہے کہ اس دور میں ہوسِ زر اور دین سے دوری قریباً ایک ہی رفتار سے آگے بڑھ رہی ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ دولت اور دین میں جو قدرتی تعلق ہے اور دولت کے افادی پہلو کا احساس دلایا جائے۔
اس کی چوتھی وجہ یہ ہے کہ منبر ومحراب اور تسبیح وسجادہ سے جو تبلیغ اسلام ہو رہی ہے وہ نہ تو کما حقہ تبلیغ ہے نہ اس کا اثر ظاہر ہو رہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ منبر ومحراب اور تسبیح وسجادہ کو ذریعہ معاش بنا لیا گیا ہے، جس جسم کی دونوں آنکھیں دوسروں کے ہاتھوں اور جیبوں پر تپی ہوئی ہوں، اس جسم کی ایک زبان پر سچی بات کا ایک لفظ بھی آنا کیوں کر ممکن ہے، اس لیے ہدایت کے ان سرچشموں سے مداہنتز چاپلوسی، جانبداری اور تعصب کے جراثیم دھڑا دھڑ پھیل رہے ہیں۔ جن کا اثر دین سے دوری بلکہ بیزاری کی صورت میں ظاہر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
اس کی پانچویں وجہ یہ بتانا مقصود ہے کہ جائز طریقے سے اکتساب مال نہ تو دینداری کے منافی ہے نہ شریعت کے علم اور تصوف کے منافی ہے، کہ عالم اور صوفی کو لازماً مفلص وقلاش اور دوسروں کا دست نگر ہی ہونا چاہیے ؟ حقیقت یہ ہے کہ جب اکتساب مال نبوت کے منافی نہیں تو تصوف کے منافی کیوں ہونے لگا۔ انبیاء کرام کی عملی سنت کے بیان میں البدایہ والنہایہ میں علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ علماء تاریخ وتفسیر وغیرہم نے فرمایا کہ حضرت ایوب کثیر المال تھے آپ کے پاس ہر قسم کے مال کی فراوانی تھی، مثلاً مویشی، بھیڑ، بکری اور غلام وغیرہ اور کاشتکاری کا وسیع انتظام تھا آپ کا مسکن علاقہ شام میں موضع بشند حوران میں تھا۔
تفسیر در منثور میں ہے کہ حضرت داؤدعلیہ السلام دن میں ایک زرہ بناتے تھے جو چھ ہزار درہم میں فروخت کرتے تھے۔ اس کا دو تہائی حصّہ بنی اسرائیل اور اپنے ساتھیوں پر خرچ کرتے تھے۔ حضرت آدم کھیتی باڑی کرتے تھے، حضرت ادریس خیاطی کرتے تھے۔ (وما علینا الا البلاغ)