اسرار التنزیل ملک محمد اکرم

اسرار التنزیل

ملک محمد اکرم

الم (1) ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (2) الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (3) وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ (4) أُولَئِكَ عَلَى هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (5) إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (6) خَتَمَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (7) (البقرۃ:1،7)

یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں، پرہیز گارو ں کے لیے ہدایت ہے۔جو بن دیکھے ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں ا ور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں خرچ کرتے ہیں۔اور جو ایمان لاتے ہیں اس پر جو اتارا گیا آپ پر، اور جو آپ سے پہلے اتارا گیا، اور آخرت پر بھی وہ یقین رکھتے ہیں۔وہی لوگ اپنے رب کے راستہ پر ہیں، اور وہی نجات پانے والے ہیں۔بے شک جو لوگ انکار کر چکے ہیں، برابر ہے انہیں تو ڈرائے یا نہ ڈرائے، وہ ایمان نہیں لائیں گے۔اللہ نے ان کے دلوں اورکانوں پرمہر لگا دی ہے، اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے، اوران کے لیے بڑا عذا ب ہے۔

سورہ بقرۃ باعتبار نزول مدنی ہے اور بعض آیات و احکام نزول قرآن کے بالکل آخری دور کے ہیں،مگر بلحاظ ترتیب پہلی سورۃ ہے، سورۃ فاتحہ میں جو دعا ہدایت اور صراط مستقیم کے لئے کی گئی تھی اس کا جواب ہی قرآن کریم ہے چونکہ مدینہ منورہ کی زندگی میں مکہ مکرمہ کی نسبت ایک بنیادی فرق یہ بھی تھا کہ وہاں مخاطب مشرکین و کفار تھے مگر یہاں ایسے لوگ بھی تھے جو اپنے کو مسلم اور اللہ کا مقرب جانتے تھے اور سید ناموسی علیہ الصلوة والسلام کےحقیقی پیرو کار ہونے کے مدعی بھی تھے ۔ اور حقیقت یہ تھی کہ ابتداء زمانہ سے انہوں نے تعلیمات موسوی کو نہ صرف فراموش کر دیا تھا بلکہ کتب الہی کو تحریف سے بھر دیا تھا اور عبادات کی جگہ رسومات نے اور ایمانیات کی جگہ خرافات نے لے لی تھی اور بایں ہمہ اپنے حق پر ہونے کا دعوی بھی کیا تھا۔ قرآن کریم نے سب سے پہلے ایمان اور کفر کو واضح کر دیا لہذا سب سے پہلے جو بات اس کتاب کے بارے میں ارشاد ہوئی اور جو ایمان کی بنیاد ہے وہ یہ ہے الم (1) ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ(یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک و ریب نہیں)الم ،الف، لام، میمحروف مقطعات ہیں جو اکثر سورتوں کے شروع میں نازل ہوئے ہیں۔ان پر ایمان لانا ضروری اور معانی میں الجھنا غیر ضروری ہے۔کیوں کہ (انھا سر بین اللہ و رسولہ)یہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے درمیان راز ہیں۔

یعنی  اس کتاب سے جوہر جواب دعا ہے استفادہ کے لئے ضروری ہے کہ اے مخالب تو اس کے کسی مضمون یا کسی خبر جو گذشتہ یا آئندہ کے بارے میں ہو یا کسی میں بیان میں ادنی ساشبہ بھی کبھی نہ رکھ کہ واقعتا کسی شبہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں ۔ اکثر جو کتابیں ایسے مضامین پر مشتمل ہوں جوما وراء الطبیعاتی ہوں یا ہے ایسے حقائق سے بحث کرتی ہوں جو حو اس کے ادراک سے بالا تر ہوں تو خود ان کے مصنفین کو بھی یقین کامل حاصل نہیں ہوتا کہ ساری بات کی بنیاد گمان (من و تخمین) پر استوار ہوتی ہے مگر اس کتاب کا معاملہ دوسرا ہے اس کا نازل کرنے والا اللہ جل جلالہ ہے جس کا علم قدیم ہے ازلی و ابدی ہے کامل و مکمل ہے ذاتی اور حضوری ہے سو اس کی بیان کردہ حقیقتیں شک و شبہ کی رسائی سے بہت بالا ہیں ،پھر تفھیما اس شک کو رفع  کے لئے اللہ کریم نے ان تمام واسطوں اور ذریعوں کی صداقت کی گواہی دی جو انسانوں تک اس کے پہنچنے کا سبب ہے۔

(1)سب سے پہلا واسطہ اورسبب وہ فرشتہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک اس کو پہنچانے کا ذریعہ ہے۔اس فرشتے کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ذی قوۃ عند ذی العرش المکین مطاع ثم امین کہ وہ بہت طاقتور اللہ کے نزدیک بہت معزز، تمام فرشتوں کا سردار اور بہت امانت دار ہے۔ایسا طاقت ور کہ کوئی بھی اپنی طاقت سے اُس سے وحی چھین نہیں سکتا یا جبرا اس کو اس بات پر مجبور نہیں کر سکتا کہ بات میں کسی طرح کی آمیزش کرے اور اگر چہ فرشتے نوری مخلوق میں مگر ان میں بھی عام و خاص تو ضرور ہیں تو یہ کوئی عام سا فرشتہ بھی تو نہیں بلکہ مطاع ایسا فرشتہ جس کی سارے فرشتے بھی اطاعت کرتے ہیں گو یا فرشتوں کا سردار اور عند اللہ بہت معززاور بزرگی کا حامل ہے پھر ایسا امانت دار کہ جس کی امانت و دیانت پر اللہ خود گواہ ہے یعنی اللہ کی کتاب کو اللہ کے رسول تک پہنچانے کا سبب ایک ایسا فرشتہ ہے جو انتہائی قوی،معززاور امین ہے۔

(2)دوسرا واسطہ اللہ سے مخلوق تک اللہ کا رسول ہے جو صدق مجسم ہے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس کی صدا قت پر نہ صرف قرآن گواہ ہے بلکہ جس کی امانت پر اس کے بدترین دشمن یعنی مشرکین مکہ بھی گواہ ہیں جو اسے صادق اور امین کے نام سے پکارتے ہیں اور جس کی بے داغ زندگی سیرت مقدسہ اُس کی نبوت پہ سب سے بڑی شہادت ہے جہاں معجزات قاہرہ اور دلائل باہرہ اُس کی نبوت کا ثبوت ہیں۔اس کی قبل بعثت کی زندگی بھی اتنی ہی طیب و طاہر  پاک صاف اور اسی بے داغ ہے کہ کسی  بھی طرح کے جھوٹ یا غلط بیانی کا شائبہ تک بھی نہیں پا یا جا سکتا، بلکہ اس حیات طیبہ کو تمام دلائل نبوت پر ایک تفویق حاصل ہے۔ لبثت فيكم من عمری یعنی میں نے تمہارے در میان ایک حیات بسر کی ہے کیا تم مجھ پر غلط بیانی کا الزام بھی لگا سکتے ہو  کہ اس حیات طیبہ کی اللہ کریم نے قسم کھائی ہے لعمرك یعنی تیری زندگی کی قسم تیری زندگی گواہ ہے سبحان اللہ! اور فرمایا انک لعلی خلق عظیم تیرے اخلاق ان بلندیوں کو چھو رہے ہیں جو بشریت کی رسائی کی حد ہے، حاصل کلام اللہ کریم سچا اس کا پیغام لانے والا  فرشتہ شک سے بالاتر اور اُس کا رسول صادق ومصداق یہ ساری بنیاد راستی سچائی اور حق ہے، لا ریب فیہ ۔ مگر کیا کیا جائے کہ ساری مخلوق کو یہ واسطہ بھی براہ راست نصیب نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور امت کے درمیان ایک پورے طبقہ کا واسطہ ہے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست کلام باری کوسنا ، سمجھا ،سیکھا اور ساری خدائی تک پہنچا یا اگر خدا نخواستہ یہ واسطہ اور ذریعہ ہی مجروح قرار پائے تو پھر بھی لاریب فیہ ثابت نہ ہو سکے گا فرشتے اور رسول اللہ پر کسی بد نیت کو حملہ کرنے کی جرات کم ہوگی مگر صحابہ چونکہ وہ درجہ معصومیت نہیں رکھتے تو معترضین کو یہاں حملہ کرنا نسبتاً زیادہ آسان ہوگا۔ اور اگر بفر ض محال کوئی اعتراض نہ بھی کرے اور واقعتاًدہ لوگ غلط بیانی کر جائیں تو کیا ہو؟یہی کہ دین کی ساری عمارت مشکوک قرار پائے،تو اللہ تعالی نے جو علیم بذات الصدور ہے اپنی کتاب میں سب سے زیادہ احوال ان حضرات کے ارشاد فرمائے قرآن کریم کو جگہ جگہ ان کی مداح  سرائی فرمائی یہاں تک کہ ان کا ایمان مثالی ایمان قرار پایا فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ  (پھر اگر وہ اس جیسی چیز پر ایمان لائیں جس پر تم ایمان لائے ہو  ) اور ان کے قلوب مثالی قلوب یعنى  اُولٰٓئِكَ الَّذِينَ امتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوبَهُم لِلتَّقوٰى‌ؕ (بیشک یہ وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لئے پرکھ لیا ہے)اور ان کی صداقت مثالی صداقت أولئک  هم الصادقوں اور ان کی زندگی قابل اتباع بلکہ واجب الاتباع قرار دے دی والذين اتبعوا هم با حسان یہ نہ صرف اُن کے حالات کا مشاہدہ قرار دیا بلکہ فرمایا میرے علم ازلی میں یہ بات موجو د تھی اور میں نے ان کی پیدائش سے پیشتر تورات و انجیل میں ان کے اوصاف ارشاد فرما دیے تھے کہ یہ میری مثالی مخلوق ہوگی اور انبیاء علیهم الصلوۃ والسلام کے بعد کوئی ان کا مثل نہ چشم فلک ان سے پہلے پائے گی اور نہ ان کے بعد دیکھے  گی اور واقعی یہ ضروری تھا کہ قیامت تک باقی رہنے والے دین کو رسول اللہ صلی علیہ و آلہ وسلم سے لے کر اقوام عالم بلکہ ساری انسانیت تک پہنچانے والے لوگ ایسے ہی  مثالی کردار کے حامل ہونے چاہئیں تھے جن کی ہر کوشش دین کے لئے اور ہر محنت دین کی خاطر ہوا اور حق تو یہ ہے کہ نہ صرف مکہ و مدینہ منورہ کی زندگی میں ، نہ صرف روم دایران کی جنگوں میں، نہ صرف قیصر ٓ وکسری کے مقابلے میں صحابہ نے دین کی حفاظت کا حق ادا فرمایا بلکہ آج بھی انہی کی ذات مقدسہ اس بارگاہ کی پہرہ دار ہیں۔اور اگر آج ان کو ہٹا دیا جائے تو دین مخلوق تک پہنچ ہی نہیں سکتا۔وہ لسان نبوت ہیں ،وہ ترجمان نبوت ہیں ، انہوں نے قرآن کو براہ راست  نبی ﷺ سے سیکھا،سنا اور سمجھا اور پھر آپ کے سامنے عمل کر کے اس کی صحت کی سند حاصل کی ، صدیاں بیت گئیں ، کفرکے ظلمت کدے سے اٹھنے والی ہر تحریک ان سے جا ٹکرائی مگر ہمیشہ اپنا سر پاش پاش لے کر پھر انہیں اندھیروں میں گم ہو گئی۔غیروں پہ کیا دوش بعض نادان دوستوں نے بھی ان مقدس ہستیوں پر مقدمہ چلانا چاہا،ذرا انصاف تو کیجئے واقدی اور کلبی گواہ ہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم معاذ اللہ مجرم اور آج کے بزعم خویش(            ) محقیقن مصنف معاذ اللہ کیا کہنا

؎                     بسوخت عقل زحیرت کہ ایں شہ بو العجیست

مگر ان سب کے باوجود ان سب کی شان ویسی کی ویسی بے داغ ہے کہ خود قرآن کریم کی لازوال شہادتیں کسی کی کا کچھ بس نہیں چلنے دیتیں ۔جب یہاں تک بات پہنچ گئی تو بیشک ثابت ہوا لاریب فیہ، عظمت صحابیت  پہ یہ لاریب گواہ ہےاور اس بات کا واضح ثبوت کہ مقام صحابیت بجائے خود ایک خصوصیت کا حامل ہے جو بجز صحبت رسول ﷺ حاصل نہیں ہو سکتا یہ کہنا کہ الصحابۃ کلھم عدول کا کلیہ صرف احکام دین پہنچانے کی حد تک درست ہے ذاتی زندگی میں صالح ہونا اس سے ثابت نہیں، عقل و دیانت کو منہ چڑانا ہے۔ یہ بات عقل سلیم تسلیم نہیں کر سکتی کہ ایک شخص بیک وقت بدکار بھی ہو اور راست باز بھی، پھر راست باز بھی ایسا کہ اللہ کا آخری کلام اللہ کی مخلوق تک پہنچانے کا ذمہ دار قرار پائے،معترضین کو حضرت ماعز کی حکایت بطور ثبوت مل گئی مگر کاش!  اسے صحابہ پر تنقید کی بجائے ان کی مثالی توبہ کے حوالے سے مدح صحابہ میں بیان کیا جاتا، جو اس کا اصلی مقام تھا— صحت دین اور حقانیت دین کے زندہ ثبوت یہی معزز ، مقدس اور بزرگ ہستیاں ہیں۔

ھدی للمتقین ، راہ دکھاتی ہے ڈرنے والوں کو یعنی یہ راہبری کرتا ہے ان لوگوں کی جو متقی ہوں، ہدایت راہنمائی کے معنوں میں تو ساری دنیا کے لیے ہے کیوں کہ دعوت الی الحق تو پوری انسانیت کے لیے ہے، مگر یہ راہبری صرف ایسے لوگوں کے لیے ہے جو اپنے  اندر اس کے ساتھ چلنے کی استطاعت پیدا کر لیں۔ یہ قوت ہے تقوی ، جس کا اردو ترجمہ عام طور پر لفظ “ڈر “سے کیا جاتا ہے مگر یہ لفظ اس کی مراد کو بیان کرنے سے قاصر ہے، اس کا اصل مقصد ایک خاص ڈر ہے جو کسی محبوب ہستی کی ناراضگی کا ڈر ہو، جو کسی کے روٹھ جانے کا اندیشہ ہو، جو ہر حال کسی پہ نثار ہونے کی تمنا ہو، یہ وہ جذبہ ہے جو تمام خواہشات اور ارادوں کو تمام آراء اور مشوروں کو صرف اس وجہ سے روک دے کہ ایسا کرنے سے میرا رب مجھ سے خفا نہ ہو جائےاور اگر بمقتضائے بشریت غلطی صادر ہو جائے تو احساس گناہ دل میں کانٹے کی طرح چبھتا اور توبہ پر مجبور کر دیتا ہو، یہ تقویٰ ہے۔ ولم یصرفوا علی ما فعلوا حصول تقویٰ کے لیے کونسا راستہ ہےاور متقیوں میں کیا اوصاف پائے جاتے ہیں۔ ارشاد باری ہے:

الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ

(جو غیب پر ایمان لاتے ہیں)

سب سے پہلی بات ایمان بالغیب ہےکہ ایسے لوگ جو ان تمام باتوں پر جو حواس انسانی کی رسائی سے باہر ہیں رسول اللہ ﷺ کے بتانے سے ایمان لاتے  اور تصدیق کرتے ہیں، سب سےبڑاغیب خود ذات باری تعالیٰ ہے جس کی قدرت اس کی تخلیق سے تو ہویدا ہے مگر جو نہ نظر آتا ہے نہ جس کی کوئی مثال بیان کی جاسکتی ہے پھر تمام حقائق اخرویہ، دوزخ، جنت، برزخ، عذاب و ثواب قبر، سوال و جواب، روح، حشرو نشر، فرشتے، لوح محفوظ، غرض ہر وہ شے جس کی خبررسول ﷺ نے دی ہےمگر حواس انسانی مادی کے ادراک سے بالاتر ہے ، اسے صدق دل سے مانتے ہیں اور یہ ماننا صرف اعتماد علی الرسول پر منحصر ہےورنہ کوئی حیلہ عقلی وہاں تک رسائی نہیں رکھتا، آج کے دور میں چوں کہ اس اعتماد میں بہت کمی آ گئی ہے، ایک طویل دور درمیان میں حائل ہے اور بقول شاعر

؎                     و خل الزمان بنا و فوق بیننا

                     ان الزمان مغرق الاحباب

                     (زمانہ ہمارے درمیان در آیا اور ہمیں جدا کر دیا بے شک زمانہ دوستوں کو جدا کرنے والا ہے۔)

اس درازی مدت اور نئی روش کے اندھیروں نے آج کے مسلمان سے وہ درد چھین لیا ہے جو قرب نبوی ﷺ سے دل میں پیدا ہوتا ہےاور بغیر کسی عقلی دلیل کے سب سے بڑی دلیل پر اعتبار کر آیا ہے کہ حضور اکرم ﷺ کا فرما دینا سب سے بڑا ثبوت ہے اور بس اس ساری حقیقت پر ایمان انسان کو مجبور کر دیتا ہے کہ عملی زندگی کو اس روش پر ڈھالے جو قرب الہی کا سبب ہو، جس کا سب سے پہلا زینہ نماز ہے۔

و یقیمون الصلاۃ (اور وہ نماز قائم کرتے ہیں)اقامت صلاۃ صرف نماز کا پڑھنا ہی نہیں بلکہ نمازکا ایک خاص اہتمام کرنا ہےوقت جماعت مسجد کی حاضری کا احساس، ایک فکر جو ارکان وضو سے لے کرارکان صلاۃ تک کارفرما ہواور پھر نہ صرف نماز ادا کرتا ہوبلکہ حقیقتا تو اقامت صلاۃ یہ ہے کہ جہاں جہاں سے گزرتا جائے وہاں کے لوگوں کو بھی نمازی بناتا جائے، تب لطف ہے نماز قائم کرنے کا، مگر یہ ماوشما کا مقام نہیں ،کم از کم اپنی نماز کو صحیح وقت پر اور درست طریقے سے ادا کرنے والے ہوتے ہیں۔

 

تفصیل irfanakbar

ایک کمنٹ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *