اسرار التنزیل ملک محمد اکرم

اسرار التنزیل : ملک محمد اکرم

وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ  اور جو ہم نے ان کو دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ ایمان باللہ اور حضوری بارگاہ الہی کے اس اثر کو دیکھو کہ جن چیزوں پر کا فرجان دیتے ہیں وہ ان سب چیریں کو اللہ کے حکم پر نثار کرتا ہے ۔اگر چہ انفاق کا ترجمہ ادائے زکوۃ اور صدقات کیا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ محض فرائض و واجبات کی ہی بات نہیں بلکہ عملی زندگی کے معاشی پہلو پہ بات ہو رہی ہے ۔ یہ صرف معاشیات ہی نہیں جو انسانی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جو چوری چکاری ، سود اور رشوت کا سبب ہے جس کی اصلاح تمام مکاتب کے ماہرین چاہتے ہیں۔

مگر قرآن مجید نے اس کی اصلاح کا جو طریقہ اختیار فرمایا ہے وہ ان سب سے الگ ہے یعنی وہ خرچ اللہ کے حکم کے مطابق کرتے ہیں ظاہر ہے جس شخص کو خیر اللہ کے حکم کے مطابق کرنا ہو گا اسے غلط راستے سے کمانے کی کیا ضرورت ہے پھر یہاں تو بات بالکل واضح ہے کہ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ یعنی اس رزق میں سے جو ہم انہیں دیتے ہیں۔

جب دینے والا اللہ ہے تو حصول زر کے لئے نا جائز ذرائع کی کیا ضرورت ہے؟ظاہر ہے کہ صرف انسانی نقطہ نظر کا فرق ہے ورنہ جب رزق اللہ کی طرف سے ہے تو پھر یقیناً دہی ملے گا جو مقر ر ہے چاہے چوری کرے اور چاہے مزدوری کرے اور پھر انسان کو تمام چیزیں اللہ کی طرف سے بطور رزق ہی ملی ہیں ، جسم و جان ، عقل و خرد ، قوت و طاقت ، علم و ہنر غرض ہر کمال اللہ کی طرف سے ہے اور اس کا مصرف اللہ کی راہ میں اور اللہ کی رضا کے لئے ہے ۔یہ صرف حکایت نہیں بلکہ تاریخ عالم اس مقدس معاشرہ کی گواہ ہے جو اس طرز پر تعمیر ہوا اور جس کے آثار اب بھی باقی ہیں اور ان شاء اللہ تا قیامت رہیں گے۔ اس میں تصرف کے لئے بھی حکم ملتا ہے کہ جس قدر چیزیں اللہ کی طرف سے عطا ہوئی ہیں،ان سب میں قیمتی دولت ہے اسے چھپا کر نہ رکھے بلکہ اللہ کی مخلوق تک پہنچائے ، ایک مسلمان جس طرح حصول رزق  کےلئے حلال وحرام کا مکلف سے اسکی خرچ کرنے کےمعاملے میں کوئی پائی مرضیات باری کے خلاف خرچ نہ ہو۔یہی وہ سنہری اصول ہے جسے سوائے اسلام کے کسی نے بیان نہیں کیا حالا نکہ یہ سب سے موثر ہے کہ جب اخراجات محدود مقرر ہوں گے تو بے حد آمدنی کی خواہش بھی نہ ابھر سکے گی اور یہ سب اس وقت ہوگا کہ انسان کلی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اختیار کرے۔

وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ(البقرۃ:4)

نیز وہ لوگ جو اس (سچائی) پر ایمان رکھتے ہیں۔ جو تم پر (یعنی پیغمبر اسلام پر) نازل ہوئی ہے اور ان تمام (سچائیوں پر) جو تم سے پہلے (یعنی پیغمبر اسلام سے پہلے) نازل ہوچکی ہیں اور (ساتھی ہی) آخرت (کی زندگی) کے لیے بھی ان کے اندر یقین ہے۔

یعنی جو کچھ آپ پر نازل ہوا اس سب کو صدق دل سے مانےاور جو کلام الہی آپ سے قبل تمام انبیاء پر نازل ہوا ، ان سب کو اللہ کا کلام مانتا ہو، اگرچہ عمل صرف اس آخری کلام ہو گا۔مگر ایمان تمام ارشادات باری پر ضروری ہے۔سچ تو یہ ہے کہ اللہ کا کلام اس قدر عظیم المرتبت ہے کہ کب کبھی اور جہاں کہیں کوئی بات اللہ کی طرف سے نازل ہوئی اس کا منکر کافر ہو گا ، خواہ وہ بات بھی اس تک نہ پہنچی ہو، جیسے کوئی کہہ دے کہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر نازل ہونے والے صحائف کونہیں مانتا اگرچہ اسے یہ علم ہی نہ ہو کہ ان میں کیا بات ارشاد ہوئی ہے، وہ ان کا انکار کرنے کے بعد مومن نہیں رہے گا۔ تو اگر حضور اکرم ﷺ کے بعد کوئی نبوت یا نزول کلام کا امکان ہوتا تو پہلے نازل ہونے والے کلام کی نسبت آئندہ نازل ہونے والے کلام کے متعلق تو بہت کچھ ارشاد ہوتا مگر یہاں صرف من قبلک پر اکتفا کیا ہے۔ یہ اس بات پر واضح اور بین دلیل ہے کہ نبوت اور کلا کا نزول آپ ﷺ پر تمام ہوا۔

” مَثَلِي وَمَثَلُ الْأَنْبِيَاءِ كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى دَارًا فَأَكْمَلَهَا وَأَحْسَنَهَا إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ، فَكَانَ مَنْ دَخَلَهَا وَنَظَرَ إِلَيْهَا قَالَ: مَا أَحْسَنَهَا إِلَّا مَوْضِعَ هَذِهِ اللَّبِنَةِ فَأَنَا مَوْضِعُ اللَّبِنَةِ، خُتِمَ بِيَ الْأَنْبِيَاءُ “(مسند داؤد الطیالسی: 1894)

میری اور پہلے انبیاء کی مثال ایسے ہے کہ ایک شخص نے ایک گھر بنایا۔ اس شخص نے وہ گھر ایک اینٹ کے علاوہ بہت اچھا اور خوبصورت بنایا، تو جو بھی اس گھر میں داخل ہوتا ہے تو وہ یہی کہتا ہے کہ اگر یہ آخری اینٹ بھی لگی ہوتی تو یہ گھر کس قدر خوبصورت ہوتا! چناں چہ میں ہی وہ آخری اینٹ ہوں اور مجھ پر نبوت ختم ہو گئی ہے۔

أَنَا خَاتَمُ النَّبَيِّينَ، لَا نَبِيَّ بَعْدِي(المعجم الاوسط:3274)

میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔

نزول کلام باری آپ ﷺ پر ختم ہوا۔ اب اگر سیدنا عیسی علیہ السلام تشریف لے آئیں تو مومن ان پر پہلے سے ایمان رکھتے ہیں، کسی نئی نبوت اور نئے کلاس کی بالکل ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی اس کا امکان ہے۔ جن لوگوں نے ایسے دعوے کیے ہیں انہوں نے محض ہوا میں قلعے بنانے کی ناکام کوشش کی ہے۔

و بالاخرۃ ہم یوقنون (اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں)اگرچہ آخرت بھی ایمان بالغیب ہی کا ایک رکن ہے۔مگر ایسا عظیم رکن کہ جس پر ساری انسانی زندگی کی عمارت کی بنیاد ہے ۔اس پر بہت پختہ یقین کی ضرورت ہے۔ایک ایسا یقین جو قدم کو اٹھنے سے پہلے تھام لےاور یہ سوچنے پر مجبور کر دے کہ اس کا اخروی نتیجہ کیا ہوگا۔ اس اسے اس “کیا ہو گا “کا جواب بھی اور پھر “کیا کروں”کا جواب بھی خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ سے مل سکے گا۔ چناں چہ اس کی زندگی سنت کے رنگ میں ڈھلتی چلی جائے گی والا فلا۔ یہاں یؤمنون کی جگہ یوقنون اسی حقیقت کو واضح کر رہا ہے اور دور حاضری کی بد اعمالی کا سبب اسی یقین کی کمی ہے ۔ یقین کامل نام ہے دل کی تصدیق کا، دل کے مان کے دینے اور تصدیق کرنے کا ۔ پس جن لوگوں کو اوصاف مذکورہ الصدر حاصل ہیں یہ وہی خوش بخت ہیں جن کے متعلق فرمایا:

أُولَٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ(البقرۃ:5)

یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔

 یہ ایسے لوگ ہیں جو اپنے رب کی طرف سے بنائے ہوئے راستے پر گامزن ہیں جو اس نے اپنی شجاعت ربوبیت سے بنایا ہے۔ اس کی ربوبیت کا تقاضہ تھا ، جس طرح بدن کی ضرورتوں کا احساس اور اس کی تکمیل کے طریقے ہر ذی روح کو تعلیم فرمائے ، اسی طرح روح انسانی کی زندگی اور آرام کے لیے بھی طریقے ارشاد فرمائے۔ جن لوگوں نے ان طریقوں کو بجان و دل اختیار کیا وہی حقیقی کامیابی سے ہمکنار ہوئے ہیں۔  دنیا کا ہر انسان ہر کام میں فلاح اور کامیابی کے لیے کوشاں ہے، ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ کامیاب ہومگر لوگوں نے کامیابی اور ناکامی کے معیار اپنی طرف سے مقرر کر رکھے ہیں، جو کسی طور درست قرار نہیں دیے جا سکتے۔ حقیقی معیار وہ ہے جو اس کائنات کے خالق نے ارشاد فرمایا ہےاور جس کی تعلیم حضرت محمد ﷺ سے شروع ہو کر ہر دور میں انسانی معاشرے کی راہنمائی کرتی رہی ہے۔بالآخر حضور اکرم ﷺ پر آکر یہ سلسلہ ختم ہوا ہے۔ اگر آپ ﷺ کی بعثت کے بعد بھی کسی کو ایمان نصیب نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ قبول ایمان کی استعداد ہی نہیں رکھتا۔

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ(البقرۃ:6)

بے شک جو لوگ کافر ہوئے برابر ہے آپ ان کو ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ ویمان نہیں لائیں گے۔

یعنی جو لوگ آپ کی تعلیمات خو دآپ ﷺ کی زبان حق ترجمان سے سن کر بھی ایمان نہیں لاتے تو وہ ایمان لا ہی نہیں سکتے کہ آپ ﷺ سے بڑھ کر نہ تو کوئی نبی ہے اور نہ ہی کوئی کلام۔اس بات کو جاننے کے لیے یوں غور کریں کہ انسان صرف جسم کا نام نہیں ، نہ اکیلے روح کا بلکہ جسم و جان مل کر اکیلے انسان کہلاتے ہیں ۔ جسم کی ضروریات ہیں ، یہ بے شمار چیزوں کا محتاج ہے ، جن میں لباس ، غذاءسب سے زیادہ ضروری ہیں اور اس کی بقا ء و تعمیر کا سبب ہیں لیکن اس سے زیادہ ضروری اس کی صحت، دواء، علاج و معالجہ ہےاگر صحت درست نہ وہ تو نہ غذا کام کرتی ہے اور نہ لباس خوشی دیتا ہے۔ یہاں دو چیزیں ہیں کہ غذاء ہر جگہ سے اور ہر کسی سے فراہم ہو سکتی ہے مگر دوا اس طرح نہیں ہے۔ دوا دینے والے مخصوص لوگ ہوتے ہیں ،جو ہمارے جسم کو ہم سے زہادہ سمجھتے ہیں۔یہ لوگ انسانی جسم کی بیماری، بیماری کے سبب اور علاج کے طریقوں سے بخوبی واقف ہوتے ہیں اور انسان بوقت ضرورت ہمیشہ انہی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ جسم مادی ہے اور اس کی غذا بھی مادہ ہےاور دوا بھی مادی ہےپھر اس کا معالج ہر وہ شخص بن سکتا ہے جو اس کو حاصل کرے خواہ نیک ہو یا بد، مومن ہو یا کافر، مرد ہو یا عورت، بات فن کو حاصل کرنے کی ہے۔

مگر روح امر باری ہے اور بہت لطیف چیز ہے، حتی کہ فرشتے سے بھی لطیف تر  ہے۔ ضروریات اس کی بھی اتنی اور اسی طرح کی ہیں جیسی بدن کی ہیں مگر وہ مادی نہیں بلکہ لطیف ہیں۔ پھر اس کا معالج ہر کوئی نہیں بن سکتا، بلکہ یہ ایک ایسا فن ہے جس کے لیے افراد ازل سے چنے گئے بلکہ تخلیق ہی خصوصی طور پر کیے گئے ہیں۔ ہر کوئی اس فن کا ماہر نہیں بن سکتا اور نہ ہی ا س کمال کو پا سکتا ہے،خواہ کتنی ہی محنت کر لے۔ ان کو اصطلاح شریعت میں نبی اور رسول کہا گیا ہے۔پھر یہ حضرا ت بھی اپنی طرف سے کوئی چیز تجویز نہیں کرتےبلکہ اس کی دوا اور اس کی غذاء خود اللہ تعالیٰ ہی مہیا کرتے ہیں۔ نبی میں وہ قوت و ودیعت ہوتی ہے کہ وہ براہ راست کلام باری تعالیٰ نے مستفیض ہوتے ہیں اور دوسری مخلوق اس کی وساطت سے مستفید ہوتی ہے۔یہ اتنا عظیم منصب ہے کہ کسی کے چاہنے سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ اللہ نے جنہیں بنایا انہیں کو بنایا اور مقام رسالت و نبوت سے سرفراز فرمایا۔ پھر ان انبیاء و رسل نے مخلوق تک یہ بات پہنچائی کہ جیسے گندم بدن کی بنیادی غذا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ذکر روح کی بنیادی غذا ہے۔جیسے کھانے کے اوقات ، طریقے مقرر ہیں اسی طرح ذکر و عبادت کے اوقات اور طریقے بھی مقرر ہیں۔جس طرح جسمانی صحت کے لیے دوا ہے اسی انسانی روح کے لیے توبہ و استغفار ہے۔ جس طرح بعض چیزوں کے کھانےسے پرہیز جسمانی صحت کی ضرورت ہےاسی طرح روحانی صحت کی حفاظت کے لیے بعض افعال سے پرہیز ضروری ہے۔یہ سب چیزیں بھی اتنی ہی ضروری ہیں جیسے ہم جسمانی ضروریات کو ضروری جانتے ہیں۔ پھر جس قدر انبیاء دنیا میں تشریف لائے ان سے آخر وہ ہستی آئی جو سب کی سردار اور ساری کائنات کے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے،جیسے کوئی کہ رات ہے اور مجھے دکھائی نہیں دیتا تو چراغ روشن کریں گے اگر پھر بھی کہے کہ کچھ نہیں دکھتا تو بجلی کی روشنی کریں گے پھر بھی نظر نہ آیا تو سورج کا انتظار کریں گے۔اگر سورج کے طلوع ہونے کے بعد بھی اسے کچھ نظر نہ آئے تو پھر اس کی قوت بنائی ضائع ہو گئی اور وہ اندھا ہو گیا، بالکل اسی طرح بعثت رسول ﷺ کے بعد بھی جو کافر رہاوہ لاعلاج ہوا ۔ غور کریں، جسمانی حسن حضور کا کائنات میں بے مثل ، باتوں میں وہ شیر ینی جو صرف آپ کا خاصہ ہے اور پھر بات اللہ کی زبان رسول اللہﷺکی خطابت کا لطف ، الفاظ کی بندش ، زبان کی شیرنی اور حسن و وجاہت جو یہاں ہے وہ کہیں نہیں ، اب بھی یہ بات جس کے دل میں نہ اترے شاید اس کے پاس دل ہی نہیں اسی لئے فرمایا کہ ہدایت کا منبع اور نور کا مینار تو آپ کی ذات گرامی ہے جو آپ سے بھی مستفید نہ ہوا وہ کہاں سے ہو گا؟

خَتَمَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ ۖ وَعَلَىٰ أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ(البقرۃ:7)

“مہر کر دی اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پراور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کے لیے عذاب ہے۔”

یعنی ان دلوں پر اللہ تعالیٰ نے مہر کر دی ہے اور ان کے کانوں پر بھی مہر لگا دی ہے اور ساتھ ہی ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہےاور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔

ہم دل کو ایک (Pumping Machine)سمجھتے تھے۔ مگر یہ تو بہت بڑی شے نکلا ، ذرا سوچیں دماغ کیا ہے؟ رگوں کا ایک مجموعہ۔ مگراس میں کیا کچھ خزانے دفن ہیں۔ اس دماغ میں علم کو سیکھنے کی کس قدر قوت موجود ہے، اس دماغ میں کس قدر یادداشتیں اور کتبی وسعت ہے ، اس کے باوجود خطاب الہی کا سزوار نہ ٹھہرابلکہ یہ نعمت دل کے حصے میں آئی۔

؎                     یہ رتبہ بلند ملا ،جس کو مل گیا

فرمایا: نزل بہ الروح الامین علی قلبک یعنی کلام الہی کا نزول دل پر ہوا ۔ گویا کہ دل کی استعداد دماغ سے کروڑوں گنا زیادہ نکلی۔ دل کی وسعت نہ پیداکناراور اس کی عظمت ناپ تول کے پیمانوں سے بالاتر، یہ صرف گوشت کو لوتھڑا نہیں اور نہ صرف مشین  بلکہ ایک وسیع کائنات اور مکمل جہان ہے۔ انبیاء علیھم السلام کے قلوب فیضان باری تعالیٰ کو قبول کرتے اور تقسیم کرتے ہیں اور مومنین کے قلوب ان سے انوارات کو اخذ کرتے ہیں مگر کفر ایسی بلا ہے جو قلب سے یہ استعداد چھین لیتی ہے۔

جیسے خود کشی کرنے والا جب اپنے آپ کو گولی مارتا ہے تو موت تو اُسے اللہ ہی دیتا ہے مگر وہ خود اس کا سبب بنا اسی طرح ایک غلط کار انسان کی مسلسل غلط کاری دل کی موت کا سبب بن جاتی ہے اللہ اس کے دل پر مہر کر دیتا ہے جس کا سبب اس کا اپنا کردار ہوتا ہے ۔حدیث شریف میں ہے کہ جب بندہ مومن گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ نقطہ پیدا ہوتا ہے اگر تو بہ کرے تو خیر ور نہ ہر گناہ سے سیاہی بڑھتی رہتی ہے جو آخر کار سارے دل کو سیاہ کر دیتی ہے اسی کو دل کا اندھا پن اور دل کی موت کہا گیا ہے اگر انسان جسمانی زندگی سے زندہ بھی رہے تو کیا ہوا بے شمار جانور یہ زندگی گزار رہے ہیں اس کی اصل فضیلت تو اس کی روحانی زندگی تھی جسے اس کی نادانی نے کھو دیا ، یہاں ایک لطیفہ اور بھی ہے اور وہ یہ کہ خالق اور مخلوق خدا اور بندے کے درمیان ایک تعلق ایسا لطیف تر ہے جوان کا ذاتی ہے اور جسے بجز ذات باری تعالے کوئی نہیں جانتاحتی کہ نبی کریم ﷺ کو بھی تب اطلاع ملی جب اللہ کریم نے بتایاکہ ان افراد یا اس قسم کے افراد کے ساتھ میرا تعلق اس قدر بگڑ چکا ہے کہ اب ان کو تو یہ نصیب نہ ہوگی، تو یہ تعلق چونکہ ہر انسان کا علیحدہ ہے اس لئے ہر آدمی پر نزول رحمت بھی الگ طرح سے ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ مشائخ کرام اجتماعی ذکر کی تلقین فرماتے ہیں کہ ایک شخص پرا یک رنگ کی رحمت ہوگی تو دوسرے پر دوسری طرح کے انوار ، اگر کافی لوگ ہوئے تو انوار بھی رنگا رنگ ہوں گے گویا ایک گلدستہ بن رہا ہے اور یہ راز نماز با جماعت میں بھی ہے سو یہ انعامات دل کی دنیا میں ہیں جنہوں نے یہ دولت ہی ضائع کر دی یا ا س طرف متوجہ ہی نہ ہوئے ان کو اس وقت خبر ہوگی جب مادی جہان اور اس کی نعمتیں نہ رہیں گی اور صرف وہ انعامات باقی ہوں گئے جن کا مدار دل کی زندگی ، روح کی زندگی اور اس کی استعداد پر ہے ۔ دماغ اور زبان کا اقرار عند اللہ اس وقت تک معتبر نہیں جب تک تصدیق قلبی ساتھ نہ ہو تو گویا جس طرح جسم مادی و نیامیں پیدا ہوتا ہے پیغام الہی کی تصدیق کر کے دل بھی ہوگی کے میدان میں وارد ہوا مگر اس کے بعد لوگ صرف جسم کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں اور یہ نومولود قلب سسکتا بلکتا رہتاہے اور بالاخر چند ہچکیاں لے کر موت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب جاتا ہے کیا آپ نہیں جانتے کہ لوگ مسلمان گھرانوں میں جنم لینے کے بعد کس کس طرح کفر کی دلدل میں پھنس رہے ہیں، اعضاء ظاہری کی سلامتی کے ساتھ بے چارے دل اور اس کے سمع و بصر کو کھو بیٹھے۔ اعاذنا الله منها.

تفصیل irfanakbar

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *